راولپنڈی : پاکستان میں حالات حاضرہ پر ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس ہوئی ہے جس میں عسکری اداروں پر تنقید کو بلاجواز قرار دیا گیاہے۔
راولپنڈی میں ہونے والی اس مشترکہ پریس کانفرنس میںآئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا ہے کہ ’سچ کی لمبی خاموشی بہتر نہیں ہوتی لیکن جب جھوٹ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جائے تو خاموش نہیں رہا جا سکتا۔‘
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ’میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا پڑتا ہے۔ میں اپنے محکمے کےدفاع کے لیے آیا ہوں جس کے افسر اور ایجنٹس پوری دنیا میں اس ملک کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔
اس سے قبل لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ابتدائی کلمات کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کا تعارف کروایا اور میڈیا کو بتایا کہ انہوں نے موجودہ حالات کی سنگینی کے پیش نظر لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو پریس کانفرنس میں شرکت کا کہا ہے
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نےصحافی و اینکر ارشد شریف کی موت کے حوالے سے کہا کہ ’معلومات اور تحقیق کی بنیاد پر کہتا ہوں کہ اُن کی زندگی پاکستان میں محفوظ تھی۔‘
’کینیا کی پولیس نے کہا کہ شناخت کی غلطی کے باعث حادثہ پیش آیا ہے لیکن حکومت اور ہم اس بات سے مطمئن نہیں ہیں اس لیے تحقیقات کے لیے درخواست کی۔‘
انہوں نے کہا ارشد شریف کی ہلاکت کی تحقیقات کے لیے وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل کردہ ٹیم میں سے ’دانستہ طور پر آئی ایس آئی کے افسروں کو نکالا ہے تاکہ غیرجانبدار تفتیش کو ممکن بنایا جا سکے۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی نے سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے متعلق کہا کہ ’لسبیلہ میں ہمارے کور کمانڈر اور ان کے ساتھ جوان شہید ہوئے اور ان کا مذاق اڑایا گیا۔
انھوں نے کہا غیر قانونی کام نہ کرنے پرنیوٹرل،میر جعفر میر صادق کہا گیا، ڈی جی آئی ایس آئی بتایا ایسا اس لئے کہا گیا کہ آرمی چیف اور ان کے ادارے نے غیرقانونی کام کرنے سے انکار کیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آپ ہمارا محاسبہ کیجیے، صبح و شام کیجیے مگر پیمانہ یہ رکھیے کہ میں نے ملک و قوم کے لیے کیا کیا، یہ نہ رکھیے کہ میں نے کیا کیا۔‘
لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا کہنا تھا کہ غیرجانبدار رہنا صرف آرمی چیف جنرل باجوہ اور کسی ایک شخص کا فیصلہ نہیں تھا، بلکہ پورے ادارے کا فیصلہ تھا، ان کا کہنا تھا حالانکہ مارچ میں آرمی چیف باجوہ کو غیر معمولی توسیع کی پیشکش کی گئی۔
انہوں نے ادارے پر ہونے والی تنقید کا حوالہ دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ ’اگر آپ کا دل مطمئن ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے تو اس کی تعریفوں کے پُل کیوں باندھتے رہے۔ آج بھی پس پردہ کیوں مل رہے ہیں؟
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا یہ نہ کریں کہ رات کو بند دروازوں کے پیچھے ملیں اور دن کو غدار کہیں۔ قول و فعل میں اتنا بڑا تضاد درست نہیں، پاکستان کو خطرہ اندرونی عدم استحکام سے ہے۔
’نفرت اور تقسیم کی سیاست سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ معاشی مسائل کے باعث عدم استحکام سے خطرہ ہے، کہا’آئی ایس آئی کے ادارے نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ صرف وہ کام کریں گے جو قوم کے مفاد میں ہے اور آئین کے مطابق ہے۔‘
ا
ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر میری ذات کے خلاف مہم چلائی گئی مگر میں نے کارروائی کرنے سے منع کر دیا تھا،’صحافیوں کو لفافہ کہنے کے نظریے کے خلاف ہوں۔ پاکستان کے صحافی بہت مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔ اس نظریے کی مذمت کرتا ہوں۔‘
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ’ہم نے ماضی کی غلطیوں کی بہت بڑی قیمت چکائی۔ اب ہم اپنی اس بات پر کھڑے رہیں گے کہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف جس طرح کی مہم چلائی جا رہی ہے اس لیے غیرمعمولی قدم کے طور پر یہ سمجھا گیا کہ دونوں ایک ساتھ پریس کانفرنس کریں۔
انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں سوشل میڈیا کے لیے کوئی قوانین و قواعد نہیں۔ حکومت اس کے لیے کوشش کر رہی ہے،’اس چیز کو بین الاقوامی قوانین کے مطابق ریگولیٹ کرنا پڑے گا۔
تبصرے بند ہیں.