یادیں اتنی بھی خوب نہیں

فہیم خان

کسی کے بچھڑ جانے سے کوئی مر نہیں جاتا ہاں مگر جینے کے انداز بدل جاتے ہیں!ادورحاضر اور اس معاشرے میں جہاں ہر طرف ایک افراتفری کاعالم ہے۔وہاں ایک بندہ کہاں خوش رہ سکتا ہے۔اگر انسان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو جائے اور وہ اسے نہ بھول سکے توپھر وہ آسانی سے ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے۔

 دوسری جانب کسی کے بچھڑ جانے سے ہم اکثر اپنے قرب وجوار میں دیکھتے ہیں کہ کچھ ہی دنوں میں سب کچھ حسب سابق وہیں سے دوبارہ شروع ہوجاتا ہے۔ وہی روٹین، وہی زندگی کی گہماگہمی ،سب کچھ وہی پہلے سا ہوجاتاہے۔

ایسے میں کچھ لوگ اکثر یہ باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ جس کے بغیر اس کا ایک پل نہیں گزررہا تھا۔اب دیکھو ذرا اسے! ،یہ سب دیکھ کروقتی افسوس توکیاجاسکتاہے۔مگر غور کیا جائے تو یہ بھولنا بھی ایک نعمت سے کم نہیں۔

ورنہ اگر یہ چیز نہ ہوتی تو انسان کا زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا۔لیکن ہاں مگر کسی کی نیکی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے۔ اسی کا نام زندگی ہے۔ کیونکہ ہمیں تخلیق ہی ایسے کیا گیا ہے کہ زندگی کا تسلسل نہ رکے، زندگی چلتی رہے۔یہاں ریورس نہیں ہے۔بس آگے جانا ہے۔جو پیچھے رہ گیا سو رہ گیا۔

ویسے بھی کسی حادثے کے بعد اس کڑوی یاد کو دل میں لے کر بیٹھ جانا درست نہیں۔ کیونکہ اس سے انسان ذہنی دباؤ کولیکر مایوسی کا شکارہو جاتا ہے۔لہٰذا اگر کوئی حادثہ کے بعد اس پرکشش زندگی میں واپس کھو جاتا ہے تو یہ اس کیلئے بہت بہتر ہے۔

جب ہم خوشیاں دینے والے کسی لمحے کو نظر انداز کرتے ہیں تو اس لمحے کو اس کے سحر سے محروم کردیتے ہیں۔ اگر ہم زندگی کی عام چیزوں سے مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہوں گے تو ان سے حاصل ہونے والے فوائد سے خود کو محروم کرلیں گے۔کیونکہ جدوجہد، کوشش اور کاوش ہی ترقی کا ثبوت ہے۔

اگرہم بنظرغائر اپنے معاشرے پر ایک نظر ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ کسی بھی حادثہ یا غیر معمولی واقعہ کے رونما ہوجانے کے بعدہماری عوام کا جو عمومی رد عمل سامنے آتا ہے اس کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ان کا ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ موازنہ کیاجاتا ہے اور اپنے ہی ہم وطنوں کی سخت تذلیل کی جاتی ہے۔

یہ رویہ اب عام ہوتا جارہا ہے اور ہر کوئی مختلف طریقوں سے اس کا سہارا لے رہا ہے۔تاہم یہ تنقید اگر ان وجوہات یا عوامل کی نشاندہی کے لئے ہو جن پر توجہ دے کر ہمارے اجتماعی رویوں میں بہتری لائی جاسکتی ہو تو ایسی تنقید، اصلاح کی پہلی سیڑھی ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ تنقید عموماً دوسرے پر اپنے آپ کو ان سے الگ دکھانے کی نیت پر کی جاتی ہے۔

اس لئے ہمیں مجموعی طور پر اپنی سوچ، اپنے رویے بدلنا ہونگے ہمیں ایک دوسرے کیلئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں آگے بڑھنے کیلئے دوسرے کو راستہ دینا ہے نہ کہ اس کیلئے رکاوٹیں کھڑی کرنی ہیں۔

اداس چہروں کو اپنی مسکراہٹ کا کچھ حصہ دینا ہے۔ ویسے بھی ہمارا معاشرہ اندر سے کھوکھلا ہو چکاہے۔باہر سے کچھ نظر آتا ہے اور اندر سے کچھ اور ہے۔

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.