فواد چوہدری کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
فائل:فوٹو
اسلام آباد: اسلام آباد کی ایک ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے “آئینی ادارے کے خلاف تشدد پر اکسانے” کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نوید خان نے پولیس کی جانب سے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا۔ محفوظ شدہ فیصلے میں کہا گیا کہ فواد چوہدری کو 27 جنوری کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری کے بعد فواد چوہدری کے میڈیکل کے لیے پمز پہنچایا گیا تھا۔
بعدازاں فوادچوہدری نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میرا مورال بلند ہے لیکن جو کچھ ہو رہا وہ ملک کے لیے اچھا نہیں، پاکستان کے اندر تقسیم بڑھا دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایشو نہیں، اس سختی کو بھی ڈیل کرلیں گے، یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان کا نام لینے والا کوئی باقی نہ رہے، اصل جدوجہد تو عمران خان کی ہے، ہم کپتان کے ساتھ ہیں، یہ جنگ عمران خان ہی جیتے گا۔
خیال رہے کہ رہنما پی ٹی آئی کو 25 جنوری کی صبح حراست میں لیا گیا۔ ان کے خلاف اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ایک اہلکار کی جانب سے انتخابی ادارے کے ارکان کو “دھمکی” دینے کے الزام پر ایف آئی آر درج کی گئی۔
اس سے قبل فواد چوہدری کے بھائی فیصل چوہدری نے فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے بتایا کہ فواد چوہدری کو صبح 5:30 بجے 4 گاڑیوں میں لے جایا گیا جن پر کوئی نمبر پلیٹ نہیں تھی۔ فیصل نے بتایا کہ اس وقت خاندان کو فواد کے مقام کا علم نہیں تھا۔
اسلام آباد پولیس نے فواد چوہدری کو جج نوید خان کے روبرو پیش کیا اور 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔
پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ حکام کو فواد چوہدری کا فون اور اس کا لیپ ٹاپ درکار ہے، انہوں نے مزید کہا کہ فوٹو گرافی میٹرک ٹیسٹ اور وائس میچ کرانے کے لیے پی ٹی ا?ئی رہنما کی تحویل ضروری ہے۔
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنما نے انتخابی نگران کو منشی (کلرک) قرار دیا ہے۔
وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ای سی پی ایک آئینی ادارہ ہے، حکومت کی تبدیلی کا بیانیہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت تشکیل دیا گیا تھا، فواد چوہدری نے دھمکی آمیز بیانات دے کر ای سی پی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فواد نے اپنے ریمارکس پر معافی نہیں مانگی اور وہ اب بھی اپنے بیان پر قائم ہیں، سیاستدان کے خلاف بہت سارے “الیکٹرانک ثبوت” موجود ہیں۔
دوران سماعت پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے مقدمہ خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی آر قانون کے مطابق نہیں ہے، انہوں نے تنقید کرنے پر مجھ پر بغاوت کا الزام لگایا ہے، اگر ایسا ہوا تو جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی ختم ہو جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں کہا ہے آپ کورٹ نہیں ٹریبیونل ہیں، الیکشن کمیشن کے وکیل کی بات مان لیں تو اس کا مطلب ہو گا تنقید ختم ہے، میں نے میڈیا ٹاک کی جس میں سے کچھ غلط رپورٹ ہوا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میں تو سمجھا رہا تھا دھمکی نہیں دے رہا تھا، مجھے اسلام آباد پولیس نے گرفتار ہی نہیں کیا لاہور پولیس نے گرفتار کیا، لاہور پولیس نے میرا موبائل قبضے میں لیا، راہداری ریمانڈ سے قبل تو اسلام آباد پولیس نظر ہی نہیں آئی۔
فواد چوہدری نے کہا کہ میں دہشت گرد نہیں مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا، مجھے سی ٹی ڈی میں کیوں رکھا گیا، تفتیشی افسر کی تو مجھ تک پہنچ ہی نہیں، میں سپریم کورٹ کا وکیل سابق وفاقی وزیر ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ ہم سیاست میں ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کاروائیاں کر رہے ہیں، اگر یہ مقدمہ برقرار رہتا ہے تو ملک میں فری اسپیچ ختم ہو جائے گی۔
فواد کے وکلا علی بخاری اور قیصر امام نے بھی عدالت میں اپنے دلائل پیش کئے۔ علی بخاری نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف ایف آئی آر لاہور میں درج ہونی چاہیے تھی، قانون کے مطابق جہاں مبینہ جرم ہوا ہے وہاں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
قیصر امام نے کہا کہ عدالت کو یہ جانچنے کی ضرورت ہے کہ کیس میں کون سے الزامات لاگو ہیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا کسی کے کہنے پر مقدمہ درج ہو سکتا ہے؟
ان کا مزید کہنا تھا کہ فواد کی جانب سے دیئے گئے ریمارکس تھانہ کوہسار کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، فواد چوہدری یہ ریمارکس اسلام آباد میں نہیں دیے۔بعدازاں جج نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔
اس سے قبل اسلام آباد پولیس نے پاکستان تحریک انصاف کے سینئر مرکزی نائب صدر فواد چوہدری کو لاہور سے گرفتار کرکے وفاقی دارالحکومت منتقل کردیا۔انہیں تھانہ کوہسار اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کی جانب سے درج کرائے گئے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
تبصرے بند ہیں.