سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے، حکمران جماعتوں کا اعلان
فوٹو : اسکرین گریب
لاہور : حکومت میں شامل جماعتوں کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اہم فیصلے کئے گئے،سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے، حکمران جماعتوں کا اعلان،یہ بھی کہا گیا کہ چیف جسٹس اکثریتی پراقلیتی فیصلہ مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں سابق صدر آصف علی زرداری، پی۔ڈی۔ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، بلاول بھٹوزرداری، مریم نواز شریف سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین اور راہنماﺅں نے شرکت کی۔ اجلاس وڈیو لنک کے ذریعے منعقد ہوا۔
اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیاہے کہ حکمران جماعتوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا،سپریم کورٹ کا لارجر بینچ پہلے ہی کا تین کے مقابلے چار ججوں کی اکثریت سے انتخابی درخواستیں خارج کرچکا ہے.
اجلاس میں ایک ہی دن میں انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا جائے، یہ غیرجانبدارانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا بنیادی دستوری تقاضا ہے جس سے انحراف ملک کو تباہ کن سیاسی بحران میں مبتلا کردے گا ۔ یہ صورت حال ملک کے معاشی مفادات پر خود کش حملے کے مترادف ہوگی۔
اجلاس نے واضح کیا کہ لشکر اور جھتوں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ایک جماعت کے دباﺅ پر پورے ملک میں مستقل سیاسی وآئینی بحران پیدا کرنے کی سازش کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی۔
حکومت میں شامل جماعتوں کے اہم مشاورتی اجلاس میں اہم فیصلے
حکمران جماعتوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا
تین رکنی بینچ پر اعتماد نہیں ہے، حکمران جماعتوں کا اعلان pic.twitter.com/CSYleuDUtV
— PMLN (@pmln_org) April 1, 2023
بدقسمتی سے ایک انتظامی معاملے کو سیاسی وآئینی بحران بنادیاگیا ہے۔ معاشی، سکیورٹی، آئینی، قانونی اور سیاسی امورکو نظرانداز کرنا ریاستی مفادات سے لاتعلقی کے مترادف ہے ۔ خاص مقصد اور جماعت کو ریلیف دینے کی عجلت سیاسی ایجنڈا دکھائی دیتا ہے ۔ یہ آئین وقانون اور الیکشن کمشن کے اختیار کے بھی منافی ہے۔
آئین کے آرٹیکل218 (3 ) سمیت دیگر دستوری شقوں کے تحت انتخاب کرانا الیکشن کمشن کا اختیار ہے، سپریم کورٹ کو آئین کے تحت ایک آزاد اور خودمختار الیکشن کمشن کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ یہی فیصلہ سپریم کورٹ کے چار معزز جج صاحبان ازخود نمبر 1/2023میں دے چکے ہیں۔
٭ اجلاس چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کرتا ہے۔ اور تقاضا کرتاہے کہ ازخود نوٹس نمبر 1/2023 کے چار رکنی اکثریتی فیصلے کو مانتے ہوئے موجودہ عدالتی کارروائی ختم کی جائے۔
اعلامیہ میں کہا گیاکہ افسوسناک امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اقلیت کے فیصلے کو اکثریت کے فیصلے پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ یہ طرز عمل ملک میں ایک سنگین آئینی وسیاسی بحران ہی نہیں بلکہ آئین اور مروجہ قانونی طریقہ کار سے انحراف کی واضح مثال ہے۔جو ریاست کے اختیارات کی تقسیم کے بنیادی تصور کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔
اجلاس نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت تمام مقدمات کی سماعت روکنے کا حکم دیا ہے۔ متضاد عدالتی فیصلوں سے ناقابل عمل اور پیچیدہ صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔ اجلاس نے مطالبہ کیا کہ پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی طرف سے آرٹیکل 209کے تحت دائر کردہ ریفرنسز پر کارروائی کی جائے۔
اجلاس نے واضح کیا کہ جسٹس اعجاز الاحسن تو پہلے ہی اس مقدمے میں رضا کارانہ طورپر بینچ سے الگ ہوچکے تھے لہذا وہ موجودہ بینچ کا حصہ نہیں ہوسکتے۔ اس بابت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے آرڈرز واضح ہیں ، یہ سب کچھ ریکارڈ پر بھی موجود ہے۔
اجلاس نے چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ سپریم کورٹ کے بینچز میں اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو ادارے کے سربراہ کے طورپر سنیں اور فی الفور فل کورٹ اجلاس کا انعقاد کریں۔ تاکہ ’وَن۔ مین۔شو‘ کا تاثر ختم ہو۔
اجلاس نے آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر تین رکنی فیصلے کو سیاسی عدم استحکام کاباعث قرار دیا۔ جس کے ذریعے آئین کو ری رائیٹ کیا گیا۔
اجلاس نے یہ بھی قرار دیا کہ اعلی ترین عدالت کی سوچ میں تقسیم واضح نظر آرہی ہے۔ لہذا عدالت عظمی کو متازعہ سیاسی فیصلے جاری کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
مطالبہ کیاگیاکہ چیف جسٹس اور بعض دیگر ججوں سے متعلق یہ تاثر بھی ختم کیاجائے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے معاملے خصوصی امتیازی رویہ اپنا رہے ہیں۔ یہ بھی واضح کیا کہ سیاستدانوں کو مل کر بیٹھ کر فیصلے کرنے کی ہدایت کرنے والے خود تقسیم ہیں ، انہیں اپنے اندر بھی اتحاد اور اتفاق پیدا کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نزیر تارڑ نے اجلاس کوآئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پارلیمنٹ سے ہونے والی قانون سازی سے متعلق آگاہ کیا اور سپریم کورٹ میں معزز جج صاحبان کے درمیان اختلافی فیصلوں اور بینچوں کے اجراءسے پیدا ہونے والے صورت حال پر بریفنگ دی۔
اجلاس نے پارلیمنٹ کی حالیہ قانون سازی کی بھرپور تائید کی اور کہا کہ اس قانون سازی سے انصاف کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کردی گئی ہیں۔ جبکہ عوام الناس کے ساتھ یک طرفہ انصاف کی روش کا خاتمہ کرتے ہوئے انہیں داد رسی کا حق دیاگیا ہے جو فطری انصاف اور آئین کی بنیادی منشا ہے۔
پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے آرٹیکل 184 (3) سے متعلق اپنی رائے واضح کردی ہے ۔ پارلیمنٹ ایک بالادست ادارہے ہے جس کی رائے کا سب کو احترام کرنا چاہیے۔ اجلاس نے ا میدظاہر کی کہ صدر مملکت اس قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے۔
اجلاس کے دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اجلاس کو ملک کی معاشی صورتحال پر بریفنگ دی۔
اجلاس میں ایم کیو ایم کے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، امین الحق ، سردار اختر مینگل، ہاشم نوتزئی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،محمد طاہر بزنجو، محمود خان اچکزئی، شفیق ترین، اے این پی کے امیر حیدر خان ہوتی ، میاں افتخار حسین ، باپ کے ڈاکٹر خالد مگسی، چوہدری سالک حسین، طاہر بشیر چیمہ،نوابزادہ شاہزین بگٹی، آفتاب احمد شیرپاؤ، خواجہ محمد آصف، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، رانا تنویر حسین، مریم اورنگزیب ، ملک محمد احمد خان، عطاء اللہ تارڑ، علامہ ساجد میر، اسلم بھوتانی ، مولانا عبدالغفور حیدری، شاہ اویس نورانی ، کامران مرتضی، محسن داوڑ، فاروق ایچ نائیک، مرتضی وہاب، شیراز راجپر شریک ہوئے۔
اجلاس میں مطالبہ کیا گیا پاکستان بار کونسل اور دیگر بار ایسوسی ایشنز کی آرٹیکل 209 کے تحت دائر ریفرنسز پر کارروائی کی جائے،جسٹس فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے 184 (3 ) کے تحت زیر سماعت مقدمات پر کارروائی سے روکنے کا کہا ہے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بینچ کے فیصلے کا احترام کرنا بھی سب پر لازم ہے۔
اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ا مید ہے کہ صدر قانون سازی کی راہ میں جماعتی وابستگی کی بنیاد پر رکاوٹ نہیں بنیں گے،پاکستان تحریک انصاف کے معاملے میں خصوصی امتیازی رویے کے تاثر کو ختم کیاجائے۔
تبصرے بند ہیں.