الیکشن کمیشن کا انتخابی شیڈول کالعدم،سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کی تاریخ دیدی

فوٹو : فائل

اسلام آباد: الیکشن کمیشن کا انتخابی شیڈول کالعدم،سپریم کورٹ نے پنجاب انتخابات کی تاریخ دیدی، سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پنجاب میں انتخابات کے التواء کا فیصلہ سنا دیا.

عدالتی فیصلے میں کہا گیا پنجاب میں پولنگ 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو ہوگی۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ روز وکلاء کے دلائل مکل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے وزارت دفاع کو اپنی رپورٹ پیش کرنے کیلئے آج (منگل) تک مہلت دی تھی، جس پر ادارے نے سیکیورٹی معاملات اور خدشات سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کردی۔ عدالت عظمیٰ نے سیکیورٹی رپورٹ کا بھی جائزہ لیا۔

چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے قرآن کی آیت پڑھ کر فیصلہ سنانے کا آغاز کیا، انہوں نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کا انتخابات 8 اکتوبر کو کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن شیڈول بحال کردیا گیا، جس میں چند تبدیلیاں کی جائیں گی، صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کا فیصلہ بحال کیا جاتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا 22 مارچ کا فیصلہ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا، آئین اور قانون الیکشن کمیشن کو انتخابی تاریخ میں توسیع کی اجازت نہیں دیتا، 22 مارچ کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا تب انتخابی عمل پانچویں مرحلے پر تھا، الیکشن کمیشن کے آرڈر کے باعث 13 دن ضائع ہوگئے.

سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب میں اب الیکشن 30 اپریل کے بجائے 14 مئی کو ہوں گے، الیکشن شیڈیول پر جتنا عمل ہوچکا وہ برقرار رہے گا، کاغذات نامزدگی کیخلاف اپیلیں 10 اپریل تک دائر ہوں گی۔

عدالت عظمیٰ نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کو الیکشن کمیشن کی معاونت کا حکم دیدیا۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ 10 اپریل تک الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے جاری کئے جائیں.

الیکشن کمیشن فنڈز ملنے کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے، الیکشن کمیشن کی رپورٹ کا چیمبر میں جائزہ لیا جائے گا، فنڈز نہ ملے تو متعلقہ حکام کو عدالت حکم جاری کرے گی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی کیلئے فنڈز کی کمی ہوئی تو کمیشن عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق پنجاب کی نگراں کابینہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ 10 اپریل تک سیکیورٹی پلان الیکشن کمیشن کو جمع کرائے۔

عدالتی فیصلے میں یکم مارچ کے حکم اور ججز کے اختلافی نوٹ کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ فیصلہ 3-4 کا ہونے کی دلیل خلاف قانون ہے، جسٹس فائز عیسی والے فیصلے کا کسی زیر التواء مقدمہ پر اطلاق نہیں ہوتا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا کے انتخابات سے متعلق گورنر کے پی کے وکیل نے پیروی سے معذرت کرلی تھی، اس لئے اس پر کوئی حکم جاری نہیں کیا جارہا، کے پی کے حوالے سے الگ سے کوئی درخواست آئی تو قانون کے مطابق جائزہ لیا جائے گا۔

منگل کو سپریم کورٹ نے 2 صوبوں میں انتخابات التوا پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا، حکومت کی طرف سے بائیکاٹ اعلامیہ کے بعد عدالت نے حکومتی وکلا کا موقف نہ سنا، سیکرٹری دفاع کے سکیورٹی معاملات پر تحفظات سامنے آنے پر عدالت نے سر بمر تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔

انتخابات کیس کا آغازہی اعتراض سے ہوا۔اٹارنی جنرل نےمتفرق درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی، عدالت سے استدعا کی گئی کہ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مقدمہ نہ سنے۔

عدالت نے درخواست میں اٹھائے گئے اعتراضات سے اتفاق نہ کیا، عدالت نے ججز کے بنچز سے الگ ہونے یا بنچز کے حوالے سےریمارکس دیے کہ جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کے تفصیلی نوٹ کتنے رکنی بینچ کے تھے؟

کہا 27 فروری کو 9 رکنی بینچ نے ازسرنو تشکیل کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جب بینچ دوبارہ تشکیل ہوا تو پانچ رکنی تھا، کیا چیف جسٹس کوئی بھی پانچ ججز شامل نہیں کرسکتے تھے؟۔

چیف جسٹس نے جسٹس فائز ازخود معاملے پر فیصلے پر کہا ہے ایک تو جسٹس فائز عیسی نے فیصلہ نہیں دیا خواہئش ظاہر کیا تھی۔۔ دوسرا جب ایک جج بنچ سے الگ ہوگیا تو فیصلہ سنانا بنتا ہی نہیں۔

سپریم کورٹ کا حکومتی اتحاد کے وکلا کو سننے سے انکار،فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر آئے تو عدالت نے کا حکومت نے تو بائیکاٹ کررکھا ہے، فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو بینچ پر تحفظات ہیں، بائیکاٹ نہیں کیا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ آپ بائیکاٹ کرکے دلائل دینے آگئے، الیکشن التوا پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سوال اٹھایا تھا کہ الیکشن کمیشن 8 اکتوبر کی تاریخ کیسے دے سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کسی کو الیکشن ملتوی کرنے کا اختیار نہیں دیتا، عدالت ہی الیکشن کی تاریخ آگے بڑھا سکتی ہے۔

سیکرٹری دفاع کے سکیورٹی تحفظات پر چیف جسٹس نے کہا الیکشن میں ڈیوٹی کے لیے جنگجو فوجی نہیں چاہئیں، ریٹائرڈ آرمی جوان بھی سکیورٹی دے سکتے ہیں، پیرا ملٹری فورسز بھی سکیورٹی دے سکتی ہیں جو وزارت داخلہ کے ماتحت ہیں.

سیکرٹری خزانہ سے کہا صرف 20 ارب روپے کے تو اخراجات ہیں، وزیرخزانہ کہتے ہیں500 ارب کا ریونیو اکٹھا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا گیا۔

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.