اسلام آباد: صدر مملکت نےاختیار سے تجاوز قرار دے کر عدالتی اصلاحات بل پارلیمنٹ کو واپس کر دیا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آرٹیکل 75 کے تحت نظرِثانی کےلیے بل واپس پارلیمنٹ بھجوایا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی کا مؤقف ہے کہ بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔ بل مصنوعی اور ناکافی ہونے کی بناء پر عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ بل کی درستگی کے بارے میں جانچ پڑتال پوری کرنے اور دوبارہ غور کرنے کیلئے واپس کرنا مناسب ہے۔
یہ بھی کہ آئین ایک اعلیٰ قانون اور دیگر تمام قوانین کا باپ ہے، آئین کوئی عام قانون نہیں، بنیادی اصولوں اور دیگر قوانین سے بالاتر قانون کا مجسمہ ہے۔ آئین میں ریاست کے 3ستونوں کے دائرہ اختیار، طاقت اور کردار کی وضاحت ہے۔ آئینی دفعات میں عام قانون سازی کے ذریعے ترمیم نہیں کی جاسکتی۔
صدر عارف علوی کا کہنا ہے کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو عدالتی کارروائی اور طریقہ کار ریگولیٹ کرنے کیلئے قوانین بنانے کا اختیار دیتا ہے، انہی آئینی دفعات کے تحت سپریم کورٹ رولز 1980ء بنائے گئے،توثیق خود آئین نے کی۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ رولز پر 1980ء سے عمل کیا جارہا ہے، چھیڑ چھاڑ عدالت کی اندرونی کارروائی،خود مختاری اور آزادی میں مداخلت ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ عدالتی اصلاحات “سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل” قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرائے جانے کے بعد دستخط کے لیے صدر کو بھیجا گیا تھا۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے تحت سو موٹو نوٹس لینے کا اختیار اب اعلیٰ عدلیہ کے 3 سینیئر ترین ججز کے پاس ہو گا۔
متذکرہ بل کے تحت چیف جسٹس کا ازخود نوٹس کا اختیار محدود ہوگا، بینچوں کی تشکیل اور از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔
تبصرے بند ہیں.