آئینی ترمیم کیلئے اکثریت نہ الیکشن قبول، 90 دن کی شق پر حکومت بند گلی میں

اسلام آباد: آئینی ترمیم کیلئے اکثریت نہ الیکشن قبول، 90 دن کی شق پر حکومت بند گلی میں پہنچ گئی، سپریم کورٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے سوا تمام راستے بند، فوری انتخابات سیاسی موت دکھائی دینے لگی.

مہنگائی اور ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے سپریم کورٹ کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کا موقف تخلیق کر لیا، ایسے میں اب حکومت کے پاس کیا راستہ ہے اور سپریم کورٹ کیا کرسکتی ہے؟

نجی ٹی وی آج نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے معروف قانون دان شاہ خاور کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نےآپ کو دو راستے دئے ہیں، ایک تو مفاہمت کا راستہ ہے کہ اگر مفاہمت پر آجائیں تو 14 مئی کی تاریخ ہم آگے بڑھا سکتے ہیں.

سپریم کورٹ کہہ چکی ہے اگر مفاہمت نہیں ہوتی تو 14 مئی ہمارا حکم ہے اس پر عمدرآمد کرائیں گے، شاہ خاور نے کہا کہ اب مسئلہ یہ ہے حکومت اور الیکشن کمیشن اس فیصلے سے اتفاق نہیں کر رہے، ان کی نظر میں یہ فیصلہ چار تین سے معطل ہوچکا ہے، اس پر انہیں چاہئیے تھا کہ نظر ثانی کی درخواست دیتے جو نہ حکومت نے دی نہ الیکشن کمیشن نے دی۔

انہوں نے کہا کہ آخری ہونے والی سماعت میں ججز حضرات نے تمام چیزوں کو سراہا کہ سب مثبت رویہ اختیار کر رہے ہیں، اور یہاں تک کہا کہ ہمیں امید ہے آپ کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے۔

شاہ خاور نے کہا کہ ججز نے اشارتاً یہ بھی کہا کہ آپ نے اس فیصلے کے حوالے سے جو کرنا چاہئیے تھا وہ نہیں کیا۔ وہ تیس دن میں کرنا ہوتا ہے اور ابھی بھی دن ہیں۔ ان کا اشارہ آرٹیکل کے 188 کے تحت ریویو پٹیشن فائل کرنے کی طرف تھا۔

ایک سوال کے جواب میں شاہ خاور کا کہنا تھا کہ دونوں اسمبلیاں دوبارہ بحال ہوجائیں تو یہ سب سے آئیڈیل سچویشن ہوگی، اس سے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے سابق صدر اور ماہر قانون شعیب شاہین سے پوچھا گیا کہ اب کل کیا ہوسکتا ہے تو پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پاس اب دو ہی آپشن ہیں، ’یا تو وہ چپ کرکے ان کو کہہ دیں کہ جی ہم نے اپنا آرڈر ریویو کرلیا، واپس لے لیا، ازخود ریویو کرلیا، ہم نہیں کر رہے اس کو پروسیس میں شامل، آپ جانیں آپ کا کام جانے، جائیں ہم بیٹھے ہوئے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ دوسرے آپشن کا امکان بہت کم ہے، کیونکہ سپریم کورٹ اگر یہ والا فیصلہ دے دے تو اس کا مطلب ہے عام آدمی کے متعلق جو فیصلہ دیا جائے گا اس پر عملدرآمد فوراً ہوجائے گا، لیکن بڑے لوگوں اور طاقتور طبقے کے خلاف اگر فیصلہ دے گا تو اس پر عملدرآمد کیلئے اس کے پاس اختیار نہیں ہوگا۔

ان کے مطابق یعنی دوسرا آپشن یہ ہے کہ انہیں ہر حال میں اپنے فیصلے پر عملدرآماد کرانا ہے، جس کے پروسیس میں توہین کی پروسیڈنگز ہوں گی۔

وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کوئی حکم دے دیا ہے تو وہ کوئی رول آف لاء نہیں ہے، آئین پارلیمان کو قانون سازی اور ریاست کے مالیاتی معاملات کے حوالے سے خودمختار بناتا ہے۔ ’لہٰذا پارلیمان اگر یہ کہتی ہے کہ ہم گرانٹ نہیں دے رہے تو پھر یہ فائنل فورم ہے‘۔

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.