اسلام آباد: سپریم کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیدی، رہائی کاحکم دے دیا، القادر ٹرسٹ میں نیب کے ہاتھوں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ کا حکم بھی کالعدم قراردے دیا۔
عمران خان کو فوری رہا کرنے اور اسلام آباد ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا حکم دیا جبکہ ہائیکورٹ کو حکم دیا کہ وہ کل کیس کی دوبارہ سماعت کر کے فیصلہ جاری کرے جس کو فریق تسلیم کرنے کا پابند ہوگاْ۔
فواد چوہدری کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ نے سماعت کی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب کے ہاتھوں القادر ٹرسٹ میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دے دیا۔
سپریم کورٹ نے عمران خان کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کو کیس کی سماعت کل کرنے اور فیصلہ جاری کرنے کی ہدایت بھی کی جبکہ عمران خان کو بھی متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت کے حکم پر عمران خان کو پولیس لائن کے گیسٹ ہاوس میں ہی آج رات گزارنے کا موقع دیاگیاہے تاکہ وہ کل صبح اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہو سکیں۔ عمران خان نے عدالت کی خواہش پر احتجاج کی کال واپس لے لی اور کہا کہ مجھے ڈنڈے مارے گئے میں تو گرفتار تھا میں کسی تشدد کی کارروائی کا ذمہ دار کیسے ہوں۔
اس سے قبل سابق وزیراعظم عمران خان کو ایک گھنٹے میں سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا حکم، عدالت نے ساڑھے 4 بجے تک پیش کرنے کا حکم دے دیا جس کے بعد پولیس سابق وزیراعظم کو لے کر عدالت روانہ ہوگئی۔
ذرائع کے مطابق پولیس لائنز کے عقبی دروازہ عمران خان کو سپریم کورٹ میں پیشی کے لئے روانہ کیا گیا اس موقع پر عدالت کے باہر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور پولیس کا انسداد دہشتگردی اسکواڈ عدالت کے اطراف موجود ہے۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کی گرفتاری کو گزشتہ روز چیلنج کیا گیا تھا جس میں پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے عدالت میں درخواست دائر کی تھی اور مؤقف اختیار کیا گیا کہ عمران خان کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہائیکورٹ کا عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دینے کا حکم کالعدم قرار دیا جائے اور عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کرنےکا حکم دیا جائے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان نے عدالت کو بتایا کہ کہ عمران خان ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ آئے تھے، وہ بائیو میٹرک کرارہے تھے جب رینجرز کمرے کا دروزاہ توڑ کر داخل ہوئی تو انہوں نے عمران خان کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کو گرفتار کر لیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کے تقدس کا معاملہ بھی سپریم کورٹ دیکھے گی، انصاف تک رسائی کے حق کو ہم نے دیکھنا ہے، ہر شہری کو انصاف تک رسائی کا حق حاصل ہے، ہم یہاں صرف اصول و قواعد اور انصاف تک رسائی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں. سیاسی حالات کی وجہ سے ملک میں جو کچھ ہورہا ہے بہت افسوسناک ہے.
چیف جسٹس نے کہا کہ احاطہ عدالت سے گرفتاری سے عدالت کا تقدس کہاں گیا، ریکارڈ کے مطابق جو مقدمہ مقرر تھا وہ شاید کوئی اور تھا، 90 افراد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو عدالت کی کیا توقیر رہی؟ نیب نے عدالت کی توہین کی ہے، کوئی بھی شخص خود کو آئندہ عدالت میں محفوظ تصور نہیں کرے گا، کسی کو ہائیکورٹ، سپریم کورٹ یا احتساب عدالت سے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، عمران خان کی گرفتاری سے عدالتی وقار مجروح کیا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ جب ایک شخص نے عدالت میں سرنڈر کردیا تھا تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب کئی سال سے مختلف افراد کے ساتھ یہی حرکتیں کر رہا ہے، اگر ایسے گرفتاریاں ہونے لگیں تو مستقبل میں کوئی عدالتوں پر اعتبار نہیں کرے گا، جب ایک شخص نے عدالت میں سرنڈر کر دیا تھا تو اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نیب وارنٹ کی قانونی حثیت نہیں اس کی تعمیل کا جائزہ لیں گے، عمران خان کی گرفتاری کے بعد جو ہوا وہ رکنا چاہیے تھا۔
جسٹس اطہر نے عمران خان کے وکلا سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟ اس پر حامد خان نے کہا کہ سپریم کورٹ عمران خان کی رہائی کا حکم دے۔
حامد خان کے مؤقف پر چیف جسٹس نے کہا کہ غیر قانونی کام سے نظر نہیں چرائی جاسکتی، آپ جو فیصلہ چاہتے ہیں اس کا اطلاق ہر شہری پر ہوگا، انصاف تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔
عدالت نے سوال کیا کہ عمران خان نیب میں شامل تفتیش کیوں نہیں ہوئے؟ کیا نیب نوٹس میں عمران خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا گیا تھا؟ نیب دوسروں سے قانون پر عمل کرانا چاہتا ہے خود نہیں کرتا۔
نیب نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے گرفتاری سے قبل اجازت لی تھی؟ عدالت کا سوال عدالت نے کہاکہ واضح ہے کہ عمران خان نے بھی نیب نوٹس پر عمل نہیں کیا تھا، نیب نوٹس کا مطلب ہوتا ہے کہ متعلقہ شخص ملزم تصور ہوگا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کئی لوگ نیب نوٹس پر ہی ضمانت کرالیتے ہیں، رکیارڈ کے مطابق عمران خان نے مارچ میں موصول نیب نوٹس کا جواب مئی میں دیا۔
عدالت نے سوال کیا کہ کیا نیب نے رجسٹرار ہائیکورٹ سے گرفتاری سے قبل اجازت لی تھی؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہاکہ نیب نے وارنٹ کی تعمیل وزارت داخلہ سے کرائی، اس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا عدالتی احاطے میں وارنٹ پر عملدرآمد وزارت داخلہ نے کیا؟ اس پر پراسیکیوٹر جنرل نیب اصغر حیدر نے کہا کہ عدلیہ کا بہت احترام کرتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب نے کئی سالوں سے سبق نہیں سیکھا، نیب پر سیاسی انجینئرنگ سمیت کئی الزامات ہیں، نیب نے ملک کو بہت تباہ کیا ہے۔
نیب کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ عمران خان کا کنڈکٹ بھی دیکھیں ماضی میں مزاحمت کرتے رہے، نیب کو جانوں کے ضیاع کا خطرہ تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے ہی گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ یکم کو وارنٹ جاری ہوئے 9 کو گرفتاری ہوئی، 8 دن نیب نے خود گرفتاری کی کوشش کیوں نہیں کی؟ کیا نیب عمران خان کو عدالت سے ہی گرفتار کرنا چاہتا تھا؟ وزارت داخلہ کو 8 مئی کو خط کیوں لکھا گیا؟
جسٹس اظہر نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے عمران خان کو عدالت کے اندر سے گرفتاری کا کہا تھا عمران خان کو کتنے نوٹسز موصول ہوئے، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان کو صرف ایک نوٹس دیا گیا تھا، اس پر جسٹس اطہر نے کہا کہ بظاہر نیب وارنٹس قانون کے مطابق نہیں تھے، جسٹس کیا وارنٹس جاری ہونے کے بعد گرفتاری کی کوشش کی گئی؟عمران خان لاہور میں تھے، نیب نے پنجاب حکومت کو وارنٹ تعمیل کا کیوں نہیں کہا؟
چیف جسٹس نے پوچھا کہ عمران خان کو گرفتار کس نے کیا تھا؟ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد کے مطابق انہوں نے وارنٹ کی تعمیل کرائی اور عدالتی حکم کے مطابق پولیس نے وارنٹ کی تعمیل کرائی تھی۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ یہ تو واضح ہوگیا کہ کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی، ملزم عدالت میں سرنڈر کر دے اور وہاں سے گرفتاری ہو تو احاطہ عدالت گرفتاریوں کے لیے آسان مقام بن جائے گا، ایسے تو ملزمان کے ذہن میں عدالتیں گرفتاریوں کی سہولت کار بن جائیں گی۔
بعدا زاں عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو حکم دیا کہ عمران خان کو ساڑھے 4 بجے تک عدالت میں پیش کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں سپریم کورٹ میں کوئی فالوور موجود نہیں ہوگا، یقینی بنائیں، وہی وکلا اور صحافی موجود ہوں جو اس وقت یہاں موجود ہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عمران خان کو جہاں سے گرفتار کیا وہیں سے ساری کارروائی دوبارہ شروع کی جائے، آج ہی حکم جاری کریں گے، جو توڑپھوڑ، سرکاری املاک کا نقصان ہوا اس پر عدالت بہت سنجیدہ ہے،عدالت نے کہا کہ عمران خان کو جس طریقے سے گرفتار کیا گیا اس کا دفاع ممکن نہیں۔
واضح رہے عمران خان کو گزشتہ روز نیب نے چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد انہیں اگلے روز پولیس لائنز میں لگنے والی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا جہاں عدالت نے ان کا 8 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔
تبصرے بند ہیں.