بھٹو کی صورت میں لگے پودے نے عمران خان کی شکل میں پھل دینا شروع کر دیا شروع اللّٰہ کے نام سے جو بڑا مہربان رحم کرنے والا لاکھوں کروڑوں درود سلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر میری کوشش ہوگی میں انتہائی مختصر الفاظ میں اپنی بات آپ تک پہنچا سکوں یہ ایک ایسا مضمون ہے جس پر بہت تفصیل سے بحث کی جا سکتی ہے لیکن آج کل لوگوں کے پاس وقت نہیں اتنی لمبی باتیں پڑھنے کا۔
ہم اسٹیبلشمنٹ کے رول کی بات کریں تو پاکستان بننے سے لے کر آج تک اسٹیبلشمنٹ سیاست سے علیحدگی نہیں اختیار کر سکی۔ لیکن کسی کو معلوم نہیں تھا یہ بھی پاکستان سیاست کا حصہ ہے۔ یہ علم ذولفقار علی بھٹو نے دیاذولفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے سیاستدان تھے جنہوں نے جنھوں نے انٹی اسٹیبلشمنٹ کام کئے۔
بھٹو ہر وہ کام کرتے تھے جس کام سے پاکستان کو فائدہ پہنچتا تھا۔ بھٹو نے نیوکلیئر پاور بنانے کا آغاز کیا۔جو پاکستان کے مخالفین کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتے تھے۔بھٹو شہید کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا انہوں نے قادیانی فتنے کو غیر مسلم قرار دیا تھا جو پاکستان کے سب سے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر خان کی سائے پروان چڑ کر مضبوط ہو چکا تھا۔
جب برصغیر کی تقسیم ہوئی اس وقت 313 قادیانی جماعت نے پاکستان کے اندر قدم رکھا تھا کس بھی شخص کو اس سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا رنگ دیکھنا شروع کر دیا شہید بھٹو یہ کام کرنے سے پہلے یہ کہہ چکے تھے اس قرارداد کی منظوری دینا اپنی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
خیر بھٹو نے پاکستانی عوام کی خواہشات کے مطابق فیصلہ کر کے عوام کے دل جیت لیے تھے۔ بعد ازاں وہی ہوا جو بھٹو شہید پہلے سے کہہ چکے تھے بھٹو کی شہادت کے بعد مخالف قوتوں میں جان آئی عوام نے احتجاج کیا لیکن مارشل لاء کے سامنے بے بس تھے۔
پھرمارشلاء کے دوران ڈکٹیٹر نے اپنے بندے پالنے کا آغاز کیا جو نواز شریف کی صورت میں سامنے آئے۔ جب انسان کسی چیز کو پاس سے دیکھتا ہے تو اس کے تمام پہلوؤں کو بھی سمجھ جاتا ہے۔ اور نواز شریف نے بھی یہی کیا اس کے ساتھ سیاست اور کھیل کو سمجھ کر اپنی جماعت کی بنیاد رکھی۔
جب اسٹپلمنٹ کے کندھوں پر حکومت حاصل کی لیکن ان سے وفا نہیں کر سکے ان کو سبق سکھانے کی کوشش کی تو اقتدار سے جانا پڑا بلکہ تین بار اسی کوشش میں اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔نواز شریف کا پہلا دور جب شروع ہوا تو ان کو احساس ہو گیا نواز شریف ان کے کام کا نہیں رہا تو انہوں نے پیپلز پارٹی پر پھر سے ہاتھ رکھنا شروع کیا جس کے بعد متحرمہ بینظر بھٹو نے مملکت پاکستان کی بھاگ دوڑ سنبھالی.
لیکن بھٹوکی بیٹی بھی باپ کے نقشے قدم پر چل پڑی اس کے ساتھ بھی وہی کیا جو نواز شریف کے ساتھ کیا گیا۔ آخر کار پھر سے شریف خاندان کے پاس جانے پر مجبور ہوئے۔کیوں اس وقت صرف یہی دو جماعتیں پاکستان میں اثر ورسوخ رکھتی تھی شریف خاندان اقتدار میں واپس آ گیا لانے والے مطمئن تھے ایک بار سبق دے چکے اب پہلے والی غلطی نہیں ہو گی۔
مگر جب انسان باغی ہو جائے تو پھر وہ اپنے حصے کا کام پورا کرنے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔ نواز شریف نے دنیا کو بتایا کے پاکستان ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ لیکن مخالفین قبول کرنے کو تیار نہیں تھے جس کے نتیجے میں وہی پرانے والا کھیل کھیلا گیا۔ اور سویلین حکومت اختتام کو پہنچی۔ اور ایک اور مارشل لاء پاکستان میں لگ گیا۔
جنرل مشرف نے نواز شریف کو ملک بدر کر دیا۔ اور ایک ٹیم اپنے ساتھ تیار کر کی جس کی پیداوار ق لیگ کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ اس مارشل لاء میں جمہوریت کو بھی حصہ دینے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کام کرنے والوں کو حصہ نہ مل سکا۔ جب یہ دور اختتام کی طرف تھا تو پیپلز پارٹی اور نون لیگ دونوں مضبوط پوزیشن میں تھی ممکنہ طور پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف اقتدار میں آنے والے تھے۔
کچھ قوتیں بینظیر سے خوفزدہ تھیں انہوں نے محترمہ کو شہید کر دیاگیا۔ جس کے بعد ملک میں شدید بحران پیدا ہو گیا۔ آصف علی زرداری میدان میں آئے جیلوں کی کمان سنبھالی اور منتشر جیلوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر پیپلز پارٹی اقتدار میں آ گی۔ اور یوسف رضا گیلانی وزیراعظم اور آصف زرداری صدر منتخب ہوئے لیکن یہ لوگ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے.
جس کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ دور ختم ہوا نواز شریف کا دور آیا پھر سے میاں صاحب کو کنٹرول کرنے کی ناکام کوشش کی اور تیسری بار بھی وہی گیم ہو گی لیکن اس بار میاں صاحب نے ٹھان لی اب لوگوں کو حقیقت بتانے کا فیصلہ کیا جو لوگوں میں بہت مقبول ہو گیا۔
اسٹیبلشمنٹ نے اس خوف میں ایک بار پھر شہباز شریف سے ڈیل کرنے پر مجبور ہو گی۔ جس کے نتائج میں پی ڈی ایم کی حکومت تشکیل دے دی گی لیکن عمران خان کی آنکھیں دیکھنا ان کو نہیں پسند آیا۔ کیوں کہ وہ خان صاحب کو اپنا لاڈلا سمجھتے تھے لیکن لاڈلے نے وہی کام کیا جو اس سے پہلے لوگ کر چکے تھے.
خان صاحب نے ہسٹری کو غور سے دیکھا اور فیصلہ کیا نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیہ کو لے کر میدان میں آ گئے جو عوام کو بہت پسند آیا۔ نواز شریف نے اس کام کو اتنا آسان کر دیا عام شہری کو بھی پتہ چل گیا ہے اس کھیل کا اصل کھلاڑی کون تھا۔ پھر عمران خان نے اس بیانیہ پر اتنی محنت کی جس کا نتیجہ گزشتہ تین دن میں آپ حضرات نے دیکھا۔
یہ کوئی خوشی کی بات نہیں سرکاری املاک کو تباہ کیا گیا۔ لوگوں کے گھروں کو نقصان پہنچایا گیا لیکن لوگ ان کے اس طریقے سے بہت تنگ آ گئے تھے اپنی جان پر کھیل کر پاکستانی تاریخ میں ایسا کارنامہ سر انجام دے گے تو وقتوں تک یاد رکھا جائے گا۔ لیکن یہ سمجھنے کی ضرورت ہے نہ سیاستدان غدار ہیں نہ فوج۔
بس ہر ایک اقتدار انجوئے کرنے کے لیے پاکستانی عوام کی امیدوں سے کھیلتے ہیں۔ پاکستان کی ترقی میں سب سے بڑی روکاوٹ یہی ہے یہاں کسی کو آزادنہ طور پر کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ خیر یہ میری ذاتی رائے ہے شاید آپ لوگوں کچھ اور سوچتے ہوں۔
اب عمران کی صورت میں جو پھل پاکستانی سیاست کو ملا اس پر تھوڑی سی بات کرتے ہیں۔ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریبی ساتھی تھے لیکن اسٹبلشمنٹ نے خان سے وفا نہیں کی جس کے نتیجے میں خان نے ان کے خلاف ردعمل دیا۔ لیکن یہ بات ماننی پڑے گی خان بہادر بھی ہے چالاک بھی۔ خان نے اسٹپلمنٹ کو تقسیم کیا.
اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا کو اپنے ساتھ رکھ کر یہ ساری کاروائی کی جس کے نتیجے میں آج خان صاحب سرخرو ہوئے۔ میرا خیال ہے خان صاحب کو وزیراعظم بننے سے زیادہ خوشی ہوئی ہو گی جب اپنے لیے عوام کے جذبات دیکھیں ہوں گے یہ بات بھی ثابت کر کے بتائی طاقت کا سرچشم عوام ہے جس کے ساتھ عوام ہو گی وہی طاقتور ہو گا۔
تحریک انصاف کے کارکنان نے بھی استقامت دکھائی اپنے لیڈر کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اب خان صاحب نے ان کارکنان کے لیے کچھ کرنا ہے جن کی بدولت اسٹیبلشمنٹ منٹ ان کے آگے بے بس دیکھائی دے رہی ہے کہیں نہ کہیں نواز شریف بھی ایسے جذباتی کارکنان کو مس کر رہوں گا۔
وہ ضرور سوچ رہے ہوں گے یہ کارکنان ان کے پاس موجود ہوتے آج ان کی پوزیشن کچھ اور ہوتی لیکن میرا خیال ہے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈالنے والی ذات اللّٰہ کی اور خان کے لیے یہ سب راستے اللّٰہ نے ہموار کیے ہیں خیر اللّٰہ پاک ملک پاکستان کی حفاظت فرمائے اس کے خلاف سازش کرنے والوں کو ذلیل خوار کرے.
تبصرے بند ہیں.