اسلام آباد: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو 9 مئی کے واقعات کی کھل کر مذمت کرنی چاہیے،صدر مملکت کا کہنا ہے ان واقعات میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے صدرمملکت عارف علوی نے کہا 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے،کارروائی میں انسانی حقوق کا خیال رکھنا چاہیے۔
انھوں نے کہا مارپیٹ نہیں ہونی چاہیے، ان واقعات کی آزادانہ تحقیقات ہواور ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دینی چاہیے، آرمی ایکٹ پر مقدمات سے متعلق سیاست دانوں کو غور کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا پیپلزپارٹی کی ماضی میں حکومت نے بہترین کام کیا کہ آرمی ایکٹ کے تحت سزائیں ختم کیں،سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ نے بھی آرمی ایکٹ کے کچھ فیصلے ختم کیے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بہت نقصان ہوا، آصف زرداری کے پاکستان کھپے کے نعرے کے بعد مسئلہ حل ہوا، فوج میری ہے ، جمہوری قوتیں میری ، عوام میرے ہیں میں ان کے ساتھ ہوں۔
انھوں نے کہا احتجاج کرنا ہے تو قانون کے دائرہ میں رہیں، مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی اس کے باوجود وہ قانون کے درمیان رہ رہے ہیں۔
عارف علوی نے واضح کیا کہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی تقرری کی مخالفت نہیں کی تھی، عمران خان نے کہا تھا کہ جنرل باجوہ کو کہہ دیں جس کو ادارہ آرمی چیف بنائے قبول کریں گے۔
ایک میٹنگ میں پرویز خٹک، شاہ محمود اور اسد عمر ساتھ تھے تب بھی یہی بات ہوئی، عمران خان طے کرچکے تھے کہ انہیں آرمی چیف کی تقرری پر کوئی اعتراض نہیں۔
صدرنے کہا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایران کے ساتھ کئی دہائیوں کی دشمنی کو ختم کیا، یہ بڑا کام ہے، کسی کو ختم نہیں کرسکتے، غصے میں ہوں تو خراب آئیڈیاز جنم لیتے ہیں۔
سیاست دان کہہ رہے ہیں کہ ایمرجنسی کوئی آپشن نہیں یہ اچھی بات ہے، جہاں ادارے ناکام ہوتے ہیں وہاں قوم تباہ ہوجاتی ہے، افغانستان میں بھی اور کوئی بات نہیں ادارے تباہ ہیں۔
صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق سے متعلق دنیا پاکستان کو دیکھ رہی ہے، جس طرح انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اس پر خیال کرنا چاہیے۔
کہا سنا ہےکہ زیر حراست کچھ بچیوں کو مارا پیٹا بھی گیا ہے، قانونی کارروائی کا مطلب یہ نہیں کہ مارا پیٹا جائے، کارروائی کا مطلب ہے قانون کے حوالےکریں عدالت میں پیش کریں۔
صدرمملکت نے کہا قومی اسمبلی بہت ساری باتیں کرتی ہےکوئی سنتا ہی نہیں، سپریم کورٹ کے ججز سے اپیل ہے کہ ان معاملات پر مل کر فیصلے کرتے تو قوم کو ڈائریکشن مل جاتی۔
ان کا کہنا تھا پارلیمنٹ بالادستی کی بات کرتی ہے، 100 ممبران پارلیمنٹ کے وہاں ہیں نہیں، میں چاہتا ہوں کہ الیکشن جلدی ہو کوئی اور آئے اور مجھے فارغ کریں۔
تبصرے بند ہیں.