مبینہ آڈیو لیکس کمیشن نے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے حکم پر کارروائی روک دی

فوٹو: فائل

اسلام آباد: مبینہ آڈیو لیکس کمیشن نے سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کے حکم پر کارروائی روک دی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم باضابطہ دوبارہ آگاہ کئے جانے تک کارروائی روک رہے ہیں، جب تک آفیشلی بتایا نہیں جاتا یا نوٹیفائی نہیں ہوتا میٹنگ نہیں کررہے۔

دوسرے اجلاس میں جوڈیشل کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کردیں؟، دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی ہماری بھی ہونی چاہئے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے گئے آڈیو لیکس کمیشن کو گزشتہ روز کام سے روکتے ہوئے حکم امتناع جاری کیا اور آڈیو لیکس کیخلاف درخواستوں پر سماعت 31 مئی تک ملتوی کردی تھی۔

مبینہ آڈیو لیکس کے معاملے پر قائم جوڈیشل کمیشن کا دوسرا اجلاس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں شروع ہوگیا، کمیشن کے دیگر ممبران میں چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ نعیم اختر افغان شامل ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ آڈیو لیکس کمیشن کیخلاف درخواستوں پر اگلی سماعت کب ہے، اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 31 مئی کو آئندہ سماعت ہوگی۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اب مزید کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی، جب تک آفیشلی بتایا نہیں جاتا یا نوٹیفائی نہیں ہوتا میٹنگ نہیں ہوگی، ٹی وی خبر پر ہم نہیں چلتے، سرکاری طور پر بتانے تک اجلاس نہیں ہوگا، میں لیو گرانٹنگ آرڈر کررہا ہوں، اس کے بعد چھٹی پر ہی جاؤں گا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پرائیویسی کی بات کرتے ہیں اور خود ٹاک شوز میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں، ہم ٹاک شوز میں جواب تو نہیں دے سکتے، بطور وکیل بھی اس لئے آرڈر لیتے تھے کہ اگلے روز جا کر عدالت کو بتائیں۔

گزشتہ روز کے عدالتی حکم نامے میں ہیکر اور ٹوئٹر سے متعلق قاضی فائز عیسیٰ نے سوالات کئے، پوچھا کہ یہ ٹوئٹر اور ٹوئٹر ہینڈل کیا ہوتا ہے؟۔ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹوئٹر ایک سافٹ ویئر ہے، جس پر لوگ اپنے نام سے اکاؤنٹ بناتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ کوئی آرڈر جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کے پاس آرڈر کی کاپی ہے؟، جس پر منصور عثمان نے کمیشن کو سپریم کورٹ کے گزشتہ روز کے حکم نامے سے آگاہ کردیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا انکوائری کمیشن ان درخواستوں میں فریق ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کمیشن کو سیکریٹری کے ذریعے فریق بنایا گیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا آپ کل وہاں نوٹس ملنے پر پیش ہوئے؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ نوٹس نہیں ہوا تھا مجھے بتایا گیا تھا تو وہاں گیا تھا۔

مبینہ آڈیو کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ انکوائری کمیشن فریق تھا تو یہ نوٹس بھی نہیں کیا گیا، میں، میرے کولیگ یا سیکریٹری بھی کل کی کارروائی میں نہیں تھے، رولز کے مطابق یہی نوٹس جاری کیا جانا چاہئے تھا، کیا آپ بطور فریق وہاں رضاکارانہ طور پر چلے گئے تھے؟۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل کو سپریم کورٹ کا گزشتہ روز کا حکمنامہ پڑھنے کی ہدایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ کل کا حکمنامہ شروع سے پڑھ کر سنائیں، جوڈیشل کمیشن کے سربراہ کی ہدایت پر اٹارنی جنرل نے عدالتی حکم پڑھ کر سنایا۔

قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ کیا شعیب شاہین نے یہ کہا کہ جو بھی آڈیو آئے جج کا معاملہ سیدھا سپریم جوڈیشل کونسل بھیج دو؟، درجنوں شکایات آتی ہیں، کیا ٹھیک کرکے سپریم جوڈیشل کمیشن بھیج دیا کریں؟، آڈیو کی صداقت جانے بغیر کیا کسی کی زندگی تباہ کردیں؟، کس نے آڈیو ریکارڈ کی وہ بعد کی بات ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ سرپرائز ہوا ہوں کہ آپ نے کل یہ نکات رد نہیں کئے، شعیب شاہین صاحب نے میڈیا پر تقریریں کر دیں لیکن یہاں آنے کی زحمت نہ کی، پرائیویسی ہمیشہ گھر کی ہوتی ہے، کسی کے گھر میں جھانکا نہیں جاسکتا، باہر سڑکوں پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے بھی کیا پرائیویسی کیخلاف ہیں؟۔

کل کے حکمنامہ میں میرے کیس کا ذکر بھی ہوا، میرے کیس میں معاملہ الگ تھا، میرے کیس میں ایک شخص نے سامنے آکر کہا میں نے آپ کے بارے میں یہ معلوم کیا، ہم نے ثابت کیا کہ اس نے کچھ معلوم نہیں کیا اسے کسی اور نے کھڑا کیا، دوسروں کی عزت ہے تو تھوڑی ہماری بھی ہونی چاہئے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ابھی وہ مرحلہ ہی نہیں آیا تھا نہ ہم وہ کر رہے تھے، ہوسکتا ہے انہیں کمیشن کی کارروائی پر اعتراض نہ ہو، ان کے دوسرے فریق نے ہمیں درخواست بھیجی ہے، دوسرے فریق نے کہا ہے کہ وہ طبی معائنے کیلئے لاہور ہیں، کمیشن جب لاہور آئے تو ان کا بیان بھی لے لے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج کے حلف میں لکھا ہے فرائض آئین و قانون کے تحت ادا کروں گا، یہ انکوائری کمیشن ایک قانون کے تحت بنا ہے، کمیشن آف انکوائری ایکٹ کے تحت یہ کمیشن بنایا گیا، ہم صرف اللہ کے غلام ہیں اور کسی کے نہیں۔

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.