جاہلو لڑتے رہو

مقصود منتظر

آزاد کشمیر کے ضلع باغ میں قانون سازاسمبلی کے حلقہ 15 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے میدان مارلیا. پی پی کے ضیاء القمر نے اپنی اتحاد جماعت ن لیگ کے امیدوار مشتاق منہاس کو شکست دے دی. تحریک انصاف کے امیدوار کرنل ضمیر تیسرے نمبر پر رہے..

یہ نشست سابق وزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی نااہلی کے بعد خالی ہوئی تھی. اس حلقے میں امید وار وں کو پارٹی سے زیادہ برادری کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں…

لیگی امیدوار کو سابق وزیراعظم سردار عتیق احمد کی حمایت حاصل تھی اور مریم نواز ووٹرز کو قائل کرنے خود حلقے میں گئی تھی… ان کے جلسے میں لوگوں کی تعداد بہت تھی لیکن بیلٹ باکس میں پڑنے والے ووٹ واقعات سے بھی کم نکلے… چیئرمین پی پی بلاول نے بھی حلقے میں جلسہ کیا… ان کے جلسے بھی اتنے ہی لوگ تھے جتنے مریم کے جلسے میں تھے…..

خیر ہار جیت کھیل کا حصہ ہے اور سیاست سے بڑا کھیل آزادکشمیر یا پاکستان میں اور کوئی نہیں… اسے جوا کہیں یا انٹرنیٹ منٹ کی آخیر… تو غلط نہیں یوگا…. البتہ اس کھیل میں کھلاڑی کی انٹری کی بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ سیاست دان کا بیٹا ہو…. سرمایہ دار ہو… یا آشیرباد والا ہو… باقی کوئی غلطی سے آبھی جائے تو اس کی وقعت زیادہ نہیں…

مگر عام انسان سیاست میں مارپیٹ… توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے کام آتا ہے…. عام ورکر سے بریانی کی ایک پلیٹ عوض وہ کچھ کروایا جاتا ہے جسے کوئی مہذب معاشرے کا انسان نہیں کرسکتا… لیڈر کی معمولی تھپکی غریب ورکر کا سرمایہ ہوتا ہے.. اس تھپکی کے بدلے وہ اپنے لیڈر کیلئے کسی کی جان بھی لے سکتا ہے…

جلسہ گاہ یا کسی اور تقریب میں پارٹی قائد یا پارٹی قائدہ اسٹیج پر کسی ورکر کا نام لیے.. یا اس کی طرف ہاتھ ہلادے… یا اس کے نعرے پر ہونٹ ہلادے تو گویا… ورکر خود کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھتا ہے.. اس ادا پر تو وہ پارٹی لیڈر یا لیڈرہ کے پاوں بھی چاٹ سکتا ہے…

باغ میں فرینڈلی الیکشن میں ہار کے بعد مشتاق منہاس جیتنے والے مخالفت امید وار ضیاء قمر کے پاس پہنچے.. مبارکباد دیتے ہوئے نو منتخب ممبر ایم ایل اے کو جھپی ڈال دی… دونوں نے کافی دیر تک مسکراہٹ اور قہقہوں کا تبادلہ کیا…. عمومی طور پر یہ آزادکشمیر کی سیاست کا خاصا ہے.. سیاسی مخالفت اپنی جگہ مگر رواداری کی روایت بھی یہاں ابھی برقرار ہے..

لیکن چند سالوں سے جب سے وفاق کی پارٹیاں مضبوط ہوئیں تب سے الیکشن میں جھگڑے اور تصادم معمول کی بات بن چکی ہے. ان تصادموں میں اب تک کئی عام ورکر جانیں گنوا چکے ہیں. حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی کئی مقامات پر تصادم رپورٹ ہوئے.

سوال یہ ہے کہ ایک ہی حلقے میں رہنے والے عام ورکر سیاست دانوں کی جیت یا ہار پر کیوں آپس میں نفرتیں پیدا کرتے ہیں. کیا مہذب معاشروں میں ایسا ہوتا ہے.. سیاست دان جیت جائے یا ہار جائے وہ اگر محبت کا پیغام دیتا ہے جیتنے والے کو مبارکباد دیتا ہے تو عام ورکر ہر وقت جہالت پر کیوں تلا رہتا ہے..

پاکستان تحریک انصاف کی صورتحال سب کے سامنے ہیں.نو مئی کے واقعات میں سیاستدانوں اوربااثر شخصیات کو چھوٹ دے دی گئی اور غریب اور عام ورکر کال کوٹھریوں میں ذلیل ہورہے ہیں.

عام پاکستانی یا کشمیری اگر اب بھی اس کیفیت یا صورتحال کو نہیں سمجھتا تو تف ہے اس کی عقل پر اس کی سوچ پر…. اور ان سے یہی کہوں جاہلو لڑو اپنے لیڈروں کیلئے…
تاکہ وہ اقتدار کے مزے لیں اور تم جیل کی زینت بنتے رہوگے…. کیونکہ جیل خانے بھی تو آباد رکھنے ہیں…. سیاست دانوں کیلئے نفرت بڑھاتے جاو تاکہ سرمایہ دار کا چمن میں کاروبار چلتا ریے گا.

جاہلو لڑتے رہو

 

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.