یونان میں کشتی ڈوبی نہیں، ڈبوئی گئی، پاکستانیوں کی تعداد 400 ہو سکتی ہے
اسلام آباد: یونان میں کشتی ڈوبی نہیں، ڈبوئی گئی، پاکستانیوں کی تعداد 400 ہو سکتی ہے400، کشتی حادثے میں بڑی تعداد میں پاکستانی اب بھی لاپتہ ہیں.
نئی تفصیلات سامنے آرہی ہیں جو دل دہلا دینے والی ہیں بین الاقوامی صحافیوں نے انکشاف کیا ہے کہ یونانی کوسٹ گارڈز کے رسی باندھنے سے کشتی ڈوبی ہے۔
اب تک لاپتہ پاکستانیوں میں سے 63 کے نام ان کے پاکستان اور آزادکشمیر میں مقیم اہلخانہ کے ذریعے سامنے آچکے۔ کشتی پر سوار پاکستانیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق آزاد کشمیر کے علاقے میرپور سے ہے.
گجرات، گجرانوالہ اور دیگر اضلاع کے کافی نوجوان بھی کشتی پر موجود تھی، عالمی صحافتی ادارے اور میڈیا نمائندے اس کشتی حادثے کی کوریج میں مصروف ہیں اور پل پل ایک نیا انکشاف ہو رہا ہے۔
انہی صحافیوں میں سے ایک سکندر کرمانی بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ کشتی حادثے میں بچ جانے والوں میں سے ایک سے بات کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
New footage of the boat that capsized off the Greek coast – with around 750 people onboard
Only 104 survivors and 78 bodies have been recovered so far https://t.co/uOo4cL5n8G
— Secunder Kermani (@SecKermani) June 17, 2023
برطانوی صحافی سنکدر کرمانی چینل فور سے وابستہ ہیں، انہوں نے ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں بتایا، ’وہ فلمائے جانے کے حوالے سے بہت پریشان اور ڈرا ہوا تھا، لیکن اس نے اہم معلومات دیں۔‘
سکندر نے اس شخص کے حوالے سے بتایا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے جو کچھ کہا وہ الگ، لیکن اُس (حادثے میں بچنے والے شخص) نے کہا کہ کوسٹ گارڈ کی جانب سے کشتی کو رسی سے باندھنے کی کوشش کے فوراً بعد کشتی الٹ گئی۔
صحافی سکندر کے مطابق اس شخص نے یہ بھی کہا کہ جہاز میں تقریباً 750 افراد سوار تھے۔ جن میں سے تقریباً 400 پاکستانی، 200 مصری اور 150 شامی تھے۔
اسی شخص کا حوالہ دیتے ہوئے سکندر نے کہا کہ اس نے بتایا ہے کہ (کشتی میں) ’دو درجن کے قریب شامی خواتین اور چھوٹے بچے بھی تھے‘۔
مذکورہ شخص کے مطابق بچ جانے والوں میں سے زیادہ تر کشتی کے اوپر کی جانب تھے، جیسے وہ تھا۔سکندر کرمانی نے ایک نوجوان کی تصویر شئیر کرتے ہوئے بتایا کہ ’یہ کشمیر سے تعلق رکھنے والا ساجد ہے.
یہ یونانی سمندر میں کشتی حادثے کے بعد لاپتہ ہونے والے سینکڑوں افراد میں سے ایک ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ہم نے اس کے والد سے بات کی، جنہوں نے کہا، ’ہم نے اسے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں مانا‘ اور یورپ پہنچنے کے لیے پرعزم تھا.
ساجد کہتا تھا “پاکستان میں مواقع نہیں ہیں
انہوں نے حادثے کے بعد الٹنے والی کشتی کی تازہ ویڈیو بھی شئیر کی۔ایک اور شامی صحافی علیشیا مدینہ نے کہا، ’میں ابھی ملاکاسا پناہ گزین مرکز سے واپس آئی ہوں جہاں کشتی حادثے سے بچ جانے والے 71 افراد رہ رہے ہیں۔‘
عیلیشیا مدینہ نے بتایا کہ ’تین زندہ بچ جانے والوں نے تصدیق کی کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے ان کی کشتی سے رسی باندھی، انہیں کھینچا اور پھر کشتی الٹ گئی۔‘ مجھے بتایا کہ کشتی الٹنے کے بعد، کوسٹ گارڈز نے ان سے ”دوری اختیار کی“ اور وہاں سے چلے گئے۔‘
2/3 They told me after the boat capsized, the Coast Guards "took distance" from them and sailed away.
They say they stayed what it felt like 2-3 hours on the water until they were rescued. pic.twitter.com/1dTLTlnmWf
— Alicia Medina (@Amesegura) June 17, 2023
علیشیا مدینہ کے مطابق ’ان کا کہنا ہے کہ وہ 2 سے 3 گھنٹے پانی پر اسی طرح رہے جب تک کہ انہیں بچا نہ لیا گیا۔‘شامی صحافی نے وہاں موجود زندہ بچ جانے والوں کے حوالے سے بتایا کہ حکام کسی کو باڑ والے کیمپ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دے رہے۔
رپورٹ کے مطابق وہاں موجود لوگوں نے علیشیا کو بتایا کہ ’یہ ایک جیل کی طرح محسوس ہوتا ہے‘۔
علیشیا کے مطابق کیمپ کے حکام نے انہیں بچ جانے والوں سے بات کرنے سے روکنے کی کوشش کی، اور انہیں باڑ سے دور رہنے کو کہا۔یونان کی بائیں بازو کی جماعت MeRA25 کی رکن اسمبلی کرٹن آرسینس نے بچ جانے والوں میں سے کچھ سے بات کی.
انھوں نے دعویٰ کیا کہ کشتی اس وقت الٹی جب انہیں یونانی کوسٹ گارڈ کے ذریعے کھینچا جا رہا تھا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوسٹ گارڈز نے جان بوجھ کر کشتی دوبنے دی۔
یونانی وزارت برائے مہاجرین کے ایک اہلکار مانوس لوگوتھیٹس نے برطانوی خبر رساں ادارے ”چینل 4 نیوز“ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوسٹ گارڈ نے کیپٹن یا جہاز میں موجود دیگر لوگوں سے آمنے سامنے بات کرنے کی کوشش کی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے تارکین وطن کی کشتی کے ڈوبنے سے دو گھنٹے قبل اس سے رسی باندھنے کی کوشش کی تھی۔
یونانی حکومت کے اہلکار کا کہنا تھا کہ انہوں نے تارکین وطن کے ساتھ رابطے کے لیے چھوٹی سی کشتی سے ایک رسی باندھنے کی کوشش کی، لیکن تارکین نے اس کی مزاحمت کی۔
اس سوال پر کہ کیا یونانی کوسٹ گارڈ جہاز میں سوار افراد سے کافی قریب تھے؟اہلکار نے جواب دیا، ’ہاں وہ میرے خیال میں کپتان سے بات کر رہے تھے یا وہاں موجود پورے ہجوم سے بات کر رہے تھے کیونکہ وہ یونیفارم نہیں پہنتے، آپ اس سے بات کریں جو آپ کو جواب دے‘۔
حالانکہ یونانی کوسٹ گارڈ نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ ’واضح فاصلے‘ پر رہے۔کوسٹ گارڈ کے بیان میں کشتی کے ساتھ رسی باندھنے کی کوشش یا جہاز میں سوار افراد سے آمنے سامنے بات چیت کرنے کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا تھا۔
کیا یونان تارکین وطن کی کشتیوں کو پیچھے دھکیل کر سمندر میں چھوڑ دیتا ہے؟
جواب میں لوگوتھیٹس نے کہا، ’نہیں، یونان صرف یونان کی سرحدوں اور یورپ کی سرحدوں کا دفاع کر رہا ہے۔‘
گزشتہ سال اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین نے کہا تھا کہ انہوں نے یونان کی طرف سے ’غیر رسمی واپسی‘ کے 540 واقعات ریکارڈ کیے اور ’ہزاروں لوگوں کے انٹرویو کیے جنہیں واپس دھکیل دیا گیا تھا۔‘
پچھلے مہینے نیویارک ٹائمز نے فوٹیج شائع کی تھی، جس میں مبینہ طور پر لیسبوس کے یونانی کوسٹ گارڈ افسران کو تارکین وطن کو ایک چھ ماہ کے بچے سمیت کشتی پر زبردستی سوار کرتے ہوئے دکھایا گیا تھااور پھر انہیں بیڑے پر چھوڑ دیا گیا تھا، بعد ازاں ترک حکام نے انہیں بچایا تھا۔
واضح رہے کہ یونان کشتی حادثے کے بعد 60 سے زائد پاکستانی بدستور لاپتہ ہیں، لاپتہ ہونے والوں 13 کا تعلق گجرات، اور 50 کے قریب افراد میرپور آزاد کشمیر سے ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق یہ کشتی پائلوس کے جنوب مغرب میں تقریباً 80 کلومیٹر کے فاصلے پر کوسٹ گارڈ کی جانب سے مدد سے انکار کے بعد ڈوبی۔
کشتی لیبیا سے اٹلی جا رہی تھی، جس میں سوار بیشتر افراد کی عمر20 سال تھی، جبکہ جہاز میں سوار زیادہ تر افراد کا تعلق پاکستان، شام اورمصر سے تھا۔
لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب سمندر میں کشتی حادثے میں لاپتہ ہونے والے 22 نوجوانوں کا تعلق نوشہرہ ورکاں، 10 نوجوانوں کا تعلق کڑیال کلاں، 4 نوجوانوں کا تعلق نواحی گاؤں بھاکرنوالی سے ہے۔
کشتی حادثے میں ڈوبنے والے میلو ورکاں کے رہائشی دو نوجوان آپس میں کزن بتائے جاتے ہیں۔لاپتہ دو نوجوانوں کا تعلق نواحی گاؤں نتھو سیویا جبکہ دو کا تعلق خان مسلمان سے ہے، ایک نوجوان کا تعلق نواحی گاؤں چک پاکھر جبکہ ایک کا تعلق منگوکی سے ہے ۔
مذکورہ نوجوانوں کے گھروں میں سوگ کا سماں ہے۔ والدین اور رشتہ دار بدستور نوجوانوں کے زندہ ہونے کی دعائیں کر رہے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے اس سانحے پر پیر 19 جون کو یوم سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ کل ملک بھر میں سرکاری عمارات پر قومی پرچم سرنگوں رہے گا۔
تبصرے بند ہیں.