آئیے آم کھاہیں ۔ لیکن زرا رکیے!

خالد مجید

گرمیاں , آم اور کچی لسی ، اور اس پر حضرت غالب کا فرمانا کہ آم ھوں اور عام ھوں ، لوگوں کے ذہنوں میں ایسا سمایا کہ نکلنے کا نام ھی نہیں لیتا ادھر آم کا موسم شروع ھوا، ادھر خواب وخیال میں آم ھی آم ہیں ۔بغیر کسی ادب آداب کے آم کھاۓ چلے جاتے ہیں ۔

لیکن ہمارا خیال یہ ہیے کہ آم کھانے سے پہلے ان کی کثیر تعداد اپنے سامنے ڈھیر کر لیجیے ۔تاکہ پیٹ اور نگاہ دونوں بھرے رہیں ، صبر کا دامن تھامے رکھیں ، بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں ،آم کوئی بھی ھوں خالص ہوں ، آم خوب ٹھنڈے کر لیں تاکہ تاثیر روح تک چلی جائے۔

آموں سے نمٹنے سے پہلے آستینیں چڑھا لیں یا بغیر آستین والی شرٹ زیب تن کر لیں ،اور ھاں چھری کو آم کے قریب بھی نہ آنے دیں۔ اس مبارک پھل سے فیض یاب ہونے کے لیے اللہ کے عطا کردہ دو ہاتھ اور ایک منہ کافی ہیے ۔ آم کو پہلے دونوں ہاتھوں میں تھامیں کھانے سے پہلے دونوں ہاتھوں میں گھما کرآم کو نرم کریں۔

( ویسے پولا کریں ۔۔۔ پولا کہنے ،اور پولا کرنے میں جو مزا ہے وہ نرم کرنے میں بہرحال نہیں)۔ آم کو اس مہارت سے پولا کریں کہ آم کی جلد پر ہلکی سی خراش تک نہ آئے۔ جب آم خوب پولا ہو چکے تو دھیرے دھیرے اپنے منہ کے قریب لائیے۔ نہایت مشاقی سے آم کی بالائی سطح کے عین وسط میں بنے چھوٹے سے قدرتی ڈھکن کو ایک بالائی اور ایک زیریں دانت کی مدد سے اتاریں۔

اب دھیرے دھیرے منہ کے قریب لائیے۔ دونوں آنکھیں فرطِ عقیدت و اشتیاق سے بند کر لیجیے اور خود پر جذب کی کیفیت طاری ہو جانے دیجیے۔ اب آم کا شہد اپنے ہونٹوں کے راستے حلق میں اتاریں۔ بے صبری اور عُجلت میں اس کے حسن اور ذائقے کو داغ دار نہ کریں ،صبر کا دامن تھامے رکھیے گا۔

جب آپ سارا رس چوس چکیں تو بڑے احترام سے اس کے چھلکے دونوں اطراف سے اتار کر کسی بابرکت طشتری میں رکھ دیں۔ گٹھلی کو احتیاط سے دونوں ہاتھوں میں تھام کر تمام اطراف سے چُوسیں۔ گٹھلی پر رس کا شائبہ بھی نہ رہے تو اسے مقدس طشتری میں رکھ دیں اور دائیں جانب والا چھلکا اٹھائیں۔ اس چھلکے کی اندرونی سطح سے بھی ہر ممکن حد تک رس زبان اور دانتوں کی مدد سے نچوڑ لیں۔

یہ عمل اس وقت تک جاری رہے جب تک مٹھاس پھیکے پن میں تبدیل نہیں ہو جاتی۔ اس کے بعد یہی سلوک بائیں طرف والے چھلکے کے ساتھ کریں۔ انگلیوں، ہتھیلیوں سے چمٹے اور کلائیوں تک بہہ کر آنے والے رس کو زبان کی مدد سے چاٹ لیں۔

آم کا مزہ دوھرا ھو جاۓ گا ،آخر میں ٹھنڈے دودھ کی کچی لسی پی کر الحمدللہ کہنا نہ بھولیں کہ آپ کو یہ جنتی پھل کھانا نصیب ہوا۔ اب زرا تصوراتی ماحول سے باہر تشریف لاہیں اور زرا غور فرمائیں کہ کبھی آم صرف درختوں پر پکتے اور اترتے تھے۔

اکثریت تو اپنے ھی گھر کے آم کھاتے تھے کہ تقریباً ھر گھر میں ایک پھلدار درخت ضرور ھوتا تھا ،تو زیادہ تر آم ھی کا درخت لگایا جاتا تھا۔

پھر انسان نے بہت ترقی کر لی ھر کام میں شارٹ کٹ اپنانے ، پیسہ بے دریغ کمانے ، اور کسی کو خاطر میں نہ لانے کا خیال اس کے دل آ سمایا اور پھر وہ موت کا بھی بیوپار کرنے لگا وہ اپنے فائدے کیلئے دوسروں کو موت فروخت کرنے لگا ۔ جی ھاں ایسا ھی ہے.

ایک مسالہ ہے کیلشیم کاربائیڈ CaC2 جسے بازار میں موجود اکثریت آموں کو لگا کر آموں کا رنگ بدلتی ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو پوری دنیا میں پھلوں کو لگا کر پکانا ممنوع ہے۔ اسکا ایک استعمال آپکو بتاتا ہوں۔ گیس ویلڈنگ تو یقیناً دیکھی ہے؟

جو لوہے کی بڑی سی ٹینکی ہوتی اس میں ایک مسالہ ڈال کر آگ پیدا کی جاتی جس سے ویلڈنگ کی جاتی ہے۔ وہ مسالہ یہی کیلشیم کاربائیڈ ہوتا ہے۔ یہ آتش گیر مادہ ہے جسے فیکٹریوں میں استعمال کیا جاتا۔

آموں کی پیٹی میں اسکی تھوڑی سی مقدار کبھی چھوٹی چھوٹی چھوٹی کاغذ کی تھیلیوں میں رکھا جاتا تھا لیکن اب کاغذ کی یہ تھیلیاں ختم کر کے پیسوں کی بچت کر لی گئی ھیے ۔ یوں ھی چھڑک دیا جاتا ھیے یہ مسالہ اتنی حرارت پیدا کر دیتا ہیے کہ آموں کا رنگ بدل جاتا اور آم اندر تک گل سڑ جاتے ہیں ،اور یہ مسالہ آموں میں بھی سرائیت کر جاتا ہے۔

اسکا استعمال پاکستان میں بھی ممنوع ہے مگر یہاں قانون صرف طاقتوروں کے گھر کی باندی ہے۔ اسکے ساتھ ایک تو آم کی قدرتی خوشبو بدل جاتی۔ دوسرا کیلشیم کاربائیڈ سے پکے آم فوری تو منہ میں تیزابیت پیدا کرتے۔

گلا پکڑا جاتا ہیے اور گلے میں جلن سی ہوتی ہے، حد تو یہ ہیے کہ خوراک کی نالی میں زخم ہوجاتے اور لانگ ٹرم نقصانات میں معدے کے السر ، انتڑیوں کے مساہل ، گردوں کی تکلیف ، کینسر ھونے کے خدشات بھی پیدا ھو جاتے ہیں

آم پکانے کا دوسر ا طریقہ یہ ہے ایک گیس کا استعمال کیا جاتا ہیے ، جس کا نام ہے ethylene ایتھائلین C2H2 ہے۔ یہ گیس آموں کے اپنے اندر بھی ہوتی ہے۔ جس سے آم خود بخود پک جاتے ہیں۔ اسے پنجاب فوڈ اتھارٹی سمیت پوری دنیا پھل پکانے کے استعمال میں ریکمنڈ کرتی ہے۔

ایک بند چیمبر میں آم پھیلا کر ایتھائلین گیس چھوڑ دی جاتی ہے۔ اس سے پکے آم کا رنگ تو بہت زیادہ پیلا نہیں ھوتا ۔ مگر ان کا ذائقہ بلکل قدرتی رہتا ہے۔ دوسرا صحت کے لیے اسکا کوئی بھی نقصان نہیں،یہ شاھد مہنگی ھیے اس لیے اسکا استعمال نہیں کیا جاتا سوچنا تو ارباب اختیار نے ہے.

کاش کبھی سوچ لیں کہ انسانوں کی زندگی کو کس قدر ارزاں کر دیا ھیے اس لالچ اور ہوس نے ، اس کے ساتھ ساتھ جو سب سے ضروری بات ہیے وہ یہ کہ ھم ہر وقت کولڈ ڈرنک کے استعمال کے عادی ھو چکے ہیں آم کھاتے ھوۓ خدارا کولڈ ڈرنکس کا استعمال ہر گز نہ کریں۔

وجہ سیدھی سی ہیے کہ یہ جو مسالہ ان آموں پر لگا ھوتا ھیے وہ اور کولڈ ڈرنکس کی گیس آپس میں ٹکرائیں تو زہر کا روپ دھار لیتی ہیں اور زہر کا کام مارنا ھوتا ھیے ۔ آم ضرور کھاہیں مگر اپنی زندگی کا خیال ضرور رکھیں ۔ یہ زندگی آپ خیال بھی آپ ھی نے رکھنا ہے.

khalidmajeed925@gmail.com

آئیے آم کھاہیں ۔ لیکن زرا رکیے!

BIG SUCCESS

تبصرے بند ہیں.