ایران میں جاری مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد80اموات ہو گئی
تہران: ایران میں جاری مظاہروں میں مرنے والوں کی تعداد80اموات ہو گئی،ایران کے 125 شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے،حکومت مخالف مظاہرے 17 ستمبر کو مہسا امینی کے جنازے کے بعد سےشروع ہوئے جو پھیلتے جارہے ہیں۔
گزشتہ روزتہران اور ملک کے وسط میں یزد اور شمال مغرب میں تبریز اور سنندج سمیت کئی دوسرے شہروں میں مظاہروں کی اطلاعات ملیں۔ 20 سے زائد یونیورسٹیوں کے طلباء اور اساتذہ نے بھی ہڑتال کی اور کلاس رومز سے باہر نکل گئے
دوسری طرف صدر ابراہیم رئیسی نے اس دوران ملک کی سلامتی اور امن کے مخالفین کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کی ضرورت پر بات کی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیاہے کہ شمال مغربی شہر ساقیز سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ کرد خاتون 13 ستمبر کو دارالحکومت تہران آئی ہوئی تھی ۔
اس دوران اسے اخلاقیات کےنام سے قائم پولیس افسران نے مبینہ طور پر اس سخت قانون کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا جس میں خواتین کو حجاب سے اپنے بال ڈھانپنے کا پابند کیا گیا تھا۔
مرنے والی خاتون مہسا امینی کو”تعلیم” کے لیے حراستی مرکز میں لے جانے کے بعد وہ گر گئی اور تین دن کوما میں رہنے کے بعد ہسپتال میں دم توڑ گئی، جس کے بارے میں پولیس کاموقف ہے کہ اس کی ہلاکت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے۔
مہسا امینی کے اہل خانہ نے پولیس کاموقف مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ انہیں افسران نے مارا پیٹا،اخلاقی پولیس اور حجاب کے قانون کے خلاف مظاہرے اس کی موت کے بعد تیزی سے سب سے سنگین چیلنج میں تبدیل ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خواتین اپنے سر کے اسکارف کو الاؤ پر جلاتے ہوئے اور سرعام اپنے بال کاٹتے ہوئے “خواتین، زندگی، آزادی” اور “آمر بر باد” کے نعرے لگا رہی ہیں۔۔
ایران ہیومن رائٹس کی طرف سے کہا گیاہے کہ اس نے پیر تک 14 صوبوں میں 76 مظاہرین کی ہلاکتیں ریکارڈ کیں، جن میں چھ خواتین اور چار بچے شامل ہیں، حالانکہ اس نے خبردار کیا ہے کہ انٹرنیٹ پر پابندیاں رپورٹنگ میں تاخیر کا سبب بن رہی ہیں۔
مزید کہا گیا کہ تہران کے شمال میں مازندران اور گیلان صوبوں میں پینتیس اور کرد آبادی والے شمال مغربی صوبوں مغربی آذربائیجان، کرمانشاہ، کردستان اور الیام میں 24 ہلاکتیں رپورٹ ہوئیں۔
ادھرامریکہ میں قائم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے کم از کم 20 رپورٹرز اور بلاگرز کی رہائی کا مطالبہ کیا جنہیں حراست میں لیا گیا تھا، ساتھ ہی انسانی حقوق کے محافظوں، وکلاء اور سول سوسائٹی کے کارکنوں نے بھی۔
سی پی جے نے کہا، “ایرانی سیکورٹی فورسز کو یہ اہم نیوزدینے والے صحافیوں کے خلاف اپنے جابرانہ اقدامات کو ختم کرنا چاہیے اور انٹرنیٹ تک رسائی کو بحال کرنا چاہیے جو عوام کو باخبر رکھنے کے لیے ضروری ہے۔”
تہران میں فسادات سے نمٹنے والی پولیس کے کمانڈر کو اپنے جوانوں سے ہچکچاہٹ نہ کرنے اور مظاہرین سے لڑنے کو کہتے ہوئے فلمایا گیا تھا، جس طرح ایرانیوں نے 1980 کی دہائی میں حملہ آور عراقی افواج کا مقابلہ کیا تھا۔
تبصرے بند ہیں.